(الہٰی صفات کے معانی کی شناخت (مرتضی مطہری کی نظر میں

SEMANTICS OF DIVINE ATTRIBUTES (From the viewpoint of Mortaza Motahari)

  • Dr. Syed Muhammad Faheem Abbas
Keywords: Motahari, Semantics, Divine attributes, الٰہی صفات, معنی شناسی, مطہری

Abstract

In theology, an important issue is the interpretation of the divine attributes. The question that arises in this regard is: whether it is possible to identify divine attributes? Does the same sense can be used about human traits and divine attributes? In this study, it is tried to analysis the viewpoint of Martyr Mortaza Motahari regarding divine attributes.The author concludes that Mortaza Motahari rejects the doctrine of transcendence and pure metaphor and believes that attributes such as knowledge, life and power have equal meaning between God and man.

الٰہیات اور خدا شناسی  کی ابحاث میں  الٰہی صفات کے معانی کی شناخت کی  بحث کو  بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس بحث میں عمدہ  سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں  کہ آیا خدا وند  تعالی کی کوئی صفات ہیں؟ کیا ان صفات کی شناخت اور پہچان ممکن ہے؟ آیا  انسانی صفات کے جو معانی ہیں، خدائی صفات کے بھی وہی معنی ہیں؟  ان سوالات کے پیش نظر اس مقالے میں عالم اسلام کے ایک عظیم دانشور اور عالم، شہید مرتضی مطہری کے نظر یات کی روشنی میں ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ شہید مطہری  کے اس موضوع پر فلسفیانہ اور کلامی  دلائل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا کہ ہے انہوں نے صفات الہی کے باب میں تنزیہ محض  اور تشبیہ محض  کے نظریہ کو ردّ کیا ہے اور ان  کے عقیدہ کے  مطابق  علم، حیات  اور قدرت جیسی صفات میں،  خدا  اور انسان کے در میان  معنوی  اشتراک   پایا جاتا ہے۔

References

۔امیر عباس،علی زمانی، سخن گفتن از خدا (تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1387ش) 93۔
۔فخرالدین،رازی، المطالب العالیة من العلم الاہی (بیروت، ارالکتاب العربی، 1407 ق) 37۔
۔ موسي،ابن‌ميمون، دلالة الحائرين، تحقيق حسين آتاي ( آنكارا، مكتبة‌ الثقافة الدينية، 1972) 140۔
.Ross, James, “Religious Language” in: An introduction to the Philosophy of Religion, Ed by Brian Davies, Oxford University Press, 1993), 108 ; Dan R, Stiver, The Philosophy of Religious Language, )Blackwell, Oxford, 1996.(,19
۔غلام حسین،دینانی، نيايش فيلسوف(مشہد، دانشگاہ علوم اسلامي رضوي، 1377)، 352۔
.Dermot, Moran, “Platonism, Medieval”, in: Routledge Encyclopedia of philosophy, vol. 9. (1998), 437.
۔محمد،ايلخاني، تاريخ فلسفہ در قرون وسطي و رنسانس( تہران،ندارد، سمت 1382)،553۔
.Kenny, John Peter, “Patristic philosophy”, in: Routledge Encyclopedia of philosophy, vol. 7, (London, Routledge, 1998), 257
.Payn, Steven, “mysticism”, in:Routledge encyclopedia of philosophy, vol. 6, (London, Routledge, 1998), 624
۔كريم،مجتہدي، فلسفہ در قرون وسطي( تہران،‌ اميركبير 1379)، 110۔
.Ross, James, “Religious Language” in: An introduction to the Philosophy of Religion, Ed by Brian Davies, (Oxford University Press, 1993), 109-110. Stiver, Dan R. The Philosophy of Religious Language, Blackwell, (Oxford, 1996), 17.
۔امیر عباس،علی زمانی، سخن گفتن از خدا ؛178۔
۔ غلام حسین،دینانی، نيايش فيلسوف؛ 345۔
۔ قاضی سعید، قمی، كليد بہشت، مقدمہ و تصحيح محمد مشكات( تہران،‌ الزہرا، 1362)، 66۔
۔ قاضي سعيد ،قمي، شرح توحيد الصدوق، تصحيح و تعليق نجفقلي حبيبي، ج1( تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامي1373)، 10۔
۔قمي، شرح توحيد الصدوق، ج 1، 8۔
۔مرتضٰی، مطہری، مجموعہ‏آثار، ج‏6، )قم، انتشارات صدرا( 1035۔
۔ا یضا : 1034۔
۔ ایضا: 1004تا 1012
۔ا یضا:1041 و1042
۔ایضا:1029
۔ ایضا:1032
۔ ایضا، ج‏2 / 94۔
۔ علم منطق کی اصطلاح هے جو ممکن الوجود کے بارے میں استعمال هوتی هے اور اس سے مراد یہ هے کہ نه وجود اس کے لئے ضروری هے اور ان عدم اس کے لئے ضروری هے. اس صورت میں هم اس بات کے قائل هو جاتے ہیں کہ ممکن هے وه ذات موجود هو اور ممکن هے وه ذات موجود نه هو. لهذا یہ نقیضین ہیں۔
۔ مرتضٰی، مطہری، مجموعہ‏آثار، ج‏6: 1034
۔ایضا: 1045
۔ایضا۔
۔ایضا۔
۔ایضا، ج‏2: 101

Published
2020-10-30